ارتکاز: ایک کم یاب انسانی صلاحیت
نورالعلمہ حسن
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ
زندگی میں اپنے متعین مقاصد کے حصول کے لیے کیا کرنا چاہیے تو آپ کیا جواب دیں گے؟
دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کی اہم ترین خوبی جس نے انہیں حیرت انگیز حد تک بلندی عطا کی وہ کیا ہے؟
قلیل زندگی کے طویل سفر میں بہ یک وقت متعدد میدانوں میں فتح یابی کیسے ممکن ہے؟
تو آپ کا جواب کیا ہو گا؟
ان سوالات کے متعلق اکثر لوگ یہی جواب دیں گے کہ ساری بات فوکس کی ہے۔ پلان بنانا اور پھر اسے عملی جامہ پہنانے میں استقلال کا مظاہرہ کرنا، اپنے کاموں کے سلسلے میں جُتے رہنا ہی آپ کو کامیابی دلا سکتا ہے۔
منصوبے بہت سے لوگ بناتے ہیں لیکن بہترین منصوبہ بندی کے باوجود کامیاب سب نہیں ہوتے۔
کیا آپ جاننا چاہیں گے کہ اپنے منصوبوں کو کامیاب بنانے کی کم یاب ترین صلاحیت کیا ہے اور اس کا حصول کیسے ممکن ہے؟
کال نیوپورٹ نامی امریکی مصنف کے مطابق اکیسویں صدی میں “ارتکاز” ایک ایسی کم یاب انسانی صلاحیت ہے جو سپر پاور کی حیثیت رکھتی ہے۔
گویا جس شخص نے اس کرشماتی صلاحیت کو اپنے اندر پیدا کر لیا، نکھار لیا اس کے منصوبوں کو کامیاب اور اہداف کو پورا ہونے سے قسمت کے سوا کوئی نہیں روک سکتا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر آج کے سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے ڈسٹریکشن بھرے دور میں اس کرشماتی صلاحیت کو اپنے اندر معدوم ہونے سے روک کر کس طرح اس کی افزائش کا انتظام کیا جائے۔
توجہ بٹانے والی دنیا میں یکسوئی اور توجہ کا اہتمام کیسے کیا جائے؟
یہ سوال اہم ہے کیونکہ کم یا زیادہ بہرصورت ارتکاز کی ضرورت ہر انسان کو ہے۔ اسکول جانے والے بچے سے لے کر جامعات کے طلبا و طالبات، مصنفین اور بڑی بڑی کمپنیوں کے سی.ای.او تک ہر شخص کو اپنے دن کا کچھ حصہ لازماً ایسا درکار ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی ثمرآوری کی انتہا پر ہو اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام کاموں کو خوش اسلوبی سے مکمل کر سکے۔
لیکن پھر آ جاتے ہیں ناقابلِ اجتناب ضروری اور غیرضروری مشاغل جن کے ہوتے منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہوکر یوں لاحاصل گزر جاتے ہیں کہ کچھ پتہ ہی نہیں چلتا اور چار و ناچار انسان لمحۂ ارتکاز کے حصول میں ناکام رہتا ہے۔
دورِ حاضر میں انسان کے اندر عدم ارتکاز یا یکسوئی کے بحران کی متعدد وجوہات ہیں۔
دنوں ہفتوں کی ذہنی یا جسمانی تھکن
غیرمنظم طرزِ زندگی
ضروری یا غیرضروری مصروفیت
غیراہم مشغلوں کا بوجھ جیسے گپ شپ، سوشل میڈیا وغیرہ
اپنے کام میں عدم دلچسپی
ذہنی دباؤ اور اس کے علاوہ بھی بےشمار وجوہات انسان کے لیے توجہ اور یکسوئی کا حصول مشکل یا اکثر ناممکن بنادیتی ہیں۔
کیا عدم ارتکاز کی کیفیت سے گریز ممکن ہے؟
جی ہاں! یہ ممکن ہے کیونکہ یہ کوئی غیرفطری یا ناقابلِ عمل بات نہیں جو انسانی تاریخ میں پہلے نہ ہوئی ہو یا آج نہ ہوتی ہو۔
بس یہ انسانی ذہن کی وہ کیفیت ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنے شعور و لاشعور کی تربیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جو لوگ حصولِ ارتکاز اور ذہنی انتشار کو قابو کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہی اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کو یقینی بنا کر اپنی زندگی سے کچھ بڑا حاصل کر پاتے ہیں۔
لائحہ عمل
منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے اہم تو یہ ہے کہ آپ کے پاس ایک قابلِ عمل منصوبہ ہو، آپ کو معلوم ہو کہ آپ کو دن، ہفتے، مہینے بھر میں کیا کیا کام کرنے ہیں اور ان کاموں کو ان کی اہمیت کے اعتبار سے اول، دوم، سوم درجہ دے کر درجہ بہ درجہ مکمل کیا جائے تا کہ آپ کے اپنے ہی دیگر کام کسی ایک کام کی جانب توجہ مرکوز کرنے میں دشواری پیدا نہ کریں۔
خیالات اور صلاحیتِ فکر کی تربیت
جیسا کہ ہم نے کہا کہ ارتکاز دراصل شعور و تحت الشعور کی تربیت کا معاملہ ہے اور تربیت چند ثانیوں میں عین ناممکن ہے البتہ ایک لمحے میں کیے پختہ ارادے کے بعد جب آپ اپنے کسی ایک کام کا باقاعدہ آغاز کریں تو دوسرے خیالات کے لیے ہرگز گنجائش نہ چھوڑیں۔
یہ عمل مختصر وقت جیسے دس سے پندرہ منٹ کے دورانیے کے لیے اپنی مکمل تربیت ہونے تک جاری رکھیں۔
حتٰی کہ کچھ دنوں کی ریاضت کے بعد دس سے پندرہ منٹ کے لیے خود کو مکمل ارتکاز کی حالت میں لانا آپ کے قابو میں ہوجائے پھر آہستہ آہستہ پانچ دس منٹ بڑھا کر اس دورانیے کو آپ پہلے آدھے سے ایک اور پھر دو گھنٹوں تک باآسانی لے جا کر مؤثر طور پہ اپنے مسائل اور مطلوب کاموں کو سمجھ کر بہترین نتائج حاصل کرسکیں گے۔
توجہ منتشر نہ ہونے دیں
ماضی کی سوچ، مستقبل کی فکر، دیگر کاموں یا دوسرے لوگوں کے متعلق خیالات اور توجہ ہٹانے والی ہر چیز کو بار بار نظرانداز کریں۔ ہر مرتبہ جب کوئی اور بات یا شے آپ کی توجہ کا مرکز بننے لگے تو اس خیال کو ارادتاً یکسر جھٹک کر دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوجائیں۔
سوچنے اور کام کرنے کے ارادے کے بعد اپنے منتخب کردہ ماحول میں یکسوئی کی نیت سے متوقع طور پر اپنی ضرورت کی تمام اشیاء کے ساتھ بیٹھیں تا کہ توجہ منتشر ہونے کی گنجائش باقی نہ رہے اور آپ کو بار بار کسی بھی ضرورت سے اٹھنا نہ پڑے۔
آپ یقیناً بور ہوں گے ، اکتا جائیں گے۔۔
تاریخِ انسانی میں پہلی مرتبہ انسان سوشل میڈیا کے استعمال کے ذریعے بوریت کو اپنی زندگی سے مکمل طور پہ باہر کر چکا ہے لیکن اس طرح وہ پہ اپنی صلاحیتِ ارتکاز سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
کال نیوپورٹ کے مطابق بوریت کا دورانیہ انسانی ذہن کے وسیع تر مفاد کے لیے ضروری ہے اور مؤثر ترین کام کرنے کے لیے ارتکاز کے نقطۂ عروج پہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہوئے بوریت آپ کے کام کا لازمی جزو ہوگی جسے آپ کو سوشل میڈیا یا بیرونی خیالات جیسی کسی ڈسٹریکشن کی نذر نہیں کرنا بلکہ بارہا اپنے کام کی جانب توجہ مبذول کرنے کا ذریعہ بنانا ہے۔
فون اور سوشل میڈیا
اگر آپ کو فون نوٹیفکیشن تنگ کرتے ہیں تو گھڑی کا استعمال کیجیے، آنلائن ریسرچ وغیرہ کے لیے لیپ ٹاپ یا ڈیسک-ٹاپ دیکھیں، سوشل میڈیا ایپلیکیشنز اور دیگر نوٹیفکیشن مکمل بند کردیجیے تا کہ ان چیزوں کا قابو آپ کے ہاتھ میں ہو نہ کہ آپ ان کے ہاتھوں بےقابو ہورہے ہوں۔
اگر فون سے کسی صورت اجتناب ممکن نہیں تو کچھ وقت کے لیے ایروپلین موڈ کا استعمال کریں یا پھر گھر والوں اور متعلقہ لوگوں کو اس دورانیے میں آپ کے ایک طرف متوجہ ہونے کی کوشش کے متعلق اطلاع کر کے اپنے کام کا آغاز کیجیے۔
یاد رہے کہ مؤثر کام کرنے کے لیے یکسوئی، ارتکاز اور کامل توجہ ناگزیر ہیں اور ان کے حصول کے لیے اپنے آپ کو خاطرخواہ دورانیے کے لیے مستقلاً کئی ہفتوں اور مہینوں تک ریاضت کروانا لازم ہے۔
لہذا اگر آپ طالبِ علم ہیں، لکھاری ہیں، کسی خاص مشکل قسم کی کتاب یا نصاب کے قاری ہیں، کسی آفس میں آپ کا کام ذہنی آزمائش کی نوعیت کا ہے تو یہ ریاضتیں آپ کے کام کے معیار کو آپ کی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال کے ذریعے نقطۂ عروج پر پہنچانے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ قوتِ ارتکاز اس صدی کی انمول ترین صلاحیتوں میں سے ایک ہے سو اس کے حصول کے لیے کچھ عرصے کا بھرپور جہد کچھ مہنگا سودا نہیں۔
Wahh ❤
A very well written message for whoever wants to achieve their aspirations. GREAT JOB!!!
Jazakallah khair is mukhatasar pur asar tehrer k lie
Imtihan k dino me focus ki ehmiat ka sahi mano me anzada hota he
شکریہ عبداللہ! یہ تحریر خصوصاً طلباوطالبات ہی کے لیے ہے کیونکہ امتحانات کے سوا اور کسی موقع پر اس کی اہمیت کا انداَزہ لگانا ایک عام انسان کے لیے مشکل ہی ہے۔
Thank You for reading and taking out time to read Khadija!
😇🌠
Practical tips that I actually tried and was able to focus in studies 📒📚📑