انسانی جسم کا مدافعتی نظام اور ویکسین

تیسرا حصہ

ڈاکٹرمحمد یحییٰ نوری

خصوصی مدافعتی نظام کی حملہ آور جراثیم کو اپنی یاد داشت میں محفوظ کر لینے کی صلاحیت   انسانی جسم کو بار بار ہونے والے جراثیم کے حملوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔ جب ایسے جراثیم ، جو پہلے ایک مرتبہ حملہ آور ہو چکے ہوں ، دوبارہ جسم میں داخل ہوتے ہیں تو مدافعتی نظام بڑی سرعت کے ساتھ ان کے خلاف رد عمل دیتا ہے۔ یہ رد عمل پہلے رد عمل کے مقابلے میں تیز بھی ہوتا ہے اور زیادہ سخت بھی ۔اس سخت رد عمل کے نتیجے میں انسان جراثیم کے ہاتھوں اکثر بیماری اور  موت کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے۔

سب سے پہلا مرض جسے مکمل طور پر اس کرہ ارض سے ختم کیا گیا وہ چیچک  یا سمال پاکس تھا۔چیچک کے ہاتھوں ایک زمانے میں ہر سال لاکھوں لوگ موت کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔ جو اس مرض کے ہاتھوں بیمار ہو کر بچ جاتے تھے ان کے جسم پر بدنما داغ رہ جاتے تھے۔کچھ لوگوں کا یہ مشاہدہ تھا کہ جن لوگوں کو ایک نسبتا”  کم خطرناک مرض ، کاؤ پاکس ہو جاتا تھا  وہ چیچک کے حملے سے محفوظ رہتے تھے۔ لوگوں کا یہ بھی مشاہدہ تھا کہ اگر ایک شخص چیچک میں مبتلا ہو کر بچ جائے تو چیچک اسے دوبارہ نہیں ہوتی تھی۔ 

ان مشاہدات کو سائنسی انداز میں سب سے پہلے اٹھارویں صدی کے اواخر میں ایڈورڈ جینر نے  تجربات کی صورت میں پرکھا اور شائع کیا۔ اس نے ایک نوجوان کو کاؤ پاکس کے دانے سے نکالا ہوا مواد لگایا۔نوجوان کاؤ پاکس کا شکار ہونے کے بعد ٹھیک ہو گیا۔اس کے بعد اس نے اسی نوجوان کے جسم میں چیچک کا مواد داخل کیا ۔  یہ مواد انتہائی متعدی ہوا کرتا تھا اور اس سے متاثر ہونے والا شخص یقینی طور پر چیچک میں مبتلا ہو جایا کرتا تھا ۔اس نوجوان کو مگر کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور وہ چیچک سے محفوظ رہا۔ اس طرح دنیامیں باقاعدہ ویکسین لگانے کی ابتداء ہوئی۔چیچک جیسا مرض جو ہر سال لاکھوں لوگوں کی جان لیتا تھا اور لاکھوں کے جسم پر بدنما داغ چھوڑ جاتا، ویکسین  کے باعث صرف کتابوں میں رہ گیا۔

دوسرا مرض جو اس وقت خاتمے کے قریب ہے وہ پولیو ہے۔دنیا کا ایک بڑاحصہ پولیو سے پاک ہو چکا ہے۔پاکستا ن سمیت صرف چند ہی ممالک رہ گئے ہیں جو اب بھی پولیو سے نبرد آزما ہیں۔

آہستہ آہستہ دوسرے امراض کی ویکسین  بھی تیار کی جانے لگیں۔ عام طور سے ان ویکسین میں جراثیم سے حاصل شدہ ان کے جسم کا کوئی حصہ ہوتا ہے۔ اس حصے کو کسی ایسے کیمیائی مواد کے ساتھ ملایا جاتا ہے (جیسے پھٹکری) جو جسم کے مدافعتی نظام کو زیادہ تحریک دے سکے۔

کچھ ویکسین ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں زندہ مگر کمزور کیے ہوئے جراثیم استعمال کئے جاتے ہیں۔زندہ جراثیم کو جسم میں پہنچانے کے کچھ فوائد ہیں مگر اگر کسی کا مدافعتی نظام قدرتی طور پر کمزور ہو یا کوئی ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہو تو یہ نقصان دہ بھی ثابت ہوتے ہیں۔

 جب یہ ویکسین جسم میں داخل کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں جسم کا مدافعتی نظام جاگ اٹھتا ہے۔ ویکسین میں موجود جراثیم یا ان کے  کے اجزاء بیماری تو پیدا نہیں کر سکتے مگر وہ مدافعتی نظام کو ایک مرتبہ تحریک دے دیتے ہیں ۔کبھی کبھی اس کی وجہ سے درد اور بخار جیسی علامات نمودار ہوتی ہیں۔اگر کسی کو ویکسین سے الرجی ہوتو یہ علامات خطرناک بھی ہو سکتی ہیں۔ ایسا مگر عام طور پر نہیں ہوتا۔

جب بھی ایسے جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہیں جن کے خلاف جسم کا مدافعتی نظام ویکسین کے نتیجے میں تحریک پا چکا ہے تو ان کا مقابلہ کرنا  آسان ہوتا ہے اور انسان اس بیماری سے محفوظ ہوجا تا ہے۔

اس سلسلے کے اگلے حصے میں ہم جدید ویکسین کے بارے میں پڑھیں گے۔

(جاری ہے)