آٹو امیون یا خود مدافعتی  بیماریاں

تعارف ، علامات اور علاج

ڈاکٹر محمد یحییٰ نوری

 

ہمارے جسم کا مدافعتی نظام نہ صرف ہمیں جراثیم سے ہونے والی بیماریوں سے بچاتا ہے بلکہ ہمیں جسم میں پیدا ہونے والے کینسر خلیات سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام کے خلیات جسم کے بیمار خلیات کو بھی ٹھکانے لگانے کا کام کرتے ہیں۔  یہ سفید خلیات جسم میں موجود دیگر خلیات کا معائنہ کرتے رہتے ہیں، اور اگر انہیں شک ہو کہ کوئی خلیہ زیادہ بیمار ہے، وائرس زدہ ہے یا اس کا تعلق ہی جسم سے نہیں تو وہ اس خلیے پر حملہ کر کے اسے ختم کر دیتے ہیں۔

 سفید خلیات میں اپنے اور غیر کی پہچان کی بہترین صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ہر ایسا خلیہ جو انہیں غیر محسوس ہوتا ہے،   یہ اسے ختم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اس عمل کے دوران تھوڑی بہت سوزش بھی پیدا ہوتی ہے مگر عام حالات میں اس جنگ و جدل کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں اور  ہمیں یہ سب کچھ محسوس نہیں ہوتا۔

بعض اوقات اس مدافعتی نظام کا اپنے اور غیر میں تمیز کرنے کا نظام ٹھیک طریقے سے کام نہیں کر پاتا۔

 اکثر اس کی وجہ کسی وائرس کا حملہ ہوتا ہے جو جسم کے  اپنے خلیات  کے اجزاء سے ملتے جلتے پروٹین بناتا ہے ۔ وائرس تو چلا جاتا ہے مگر سفید خلیات اس پروٹین کے خلاف مدافعت پیدا کر چکے ہوتے ہیں۔ انہیں  عام خلیات میں بھی جہاں وہ پروٹین نظر آتا ہے یہ اس کے خلاف جنگ شروع کر دیتے ہیں۔

اس طرح کبھی دل، کبھی شریانیں ، کبھی نسیں اور کبھی جلد ان کے نشانے پر ہوتی ہے۔

کیوں کہ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اس لیے اس سے جسم میں ایک سوزشی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔اس لئے ان امراض کو سوزشی امراض کہتے ہیں۔ان خود مدافعتی امراض بھی کہا جا سکتا ہے کہ اپنا مدافعتی نظام ہی جسم کے خلاف بر سر پیکار ہو جاتا ہے۔

بقول حفیظ جالندھری۔۔

دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔

آٹو امیون یا خود مدافعتی امراض کی وجوہات

آٹو امیون یا خود مدافعتی امراض کی بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں۔

مگر کسی وجہ کے بارے میں حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی ایک چیز ہی آٹو امیون مرض پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے بلکہ اکثر متعدد وجوہات مل جل کر ایسے امراض پیدا کرتی ہیں۔

ان امراض میں موروثیت ہوتی ہے یعنی اگر ایک شخص کو کوئی آٹو امیون مرض لاحق ہے تو اس کے قریبی رشتہ داروں میں آٹو امیون امراض کے ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔

مختلف وائرس سے ہونے والے انفیکشن خود مدافعتی کا باعث بن سکتے ہیں۔

خواتین میں ان امراض کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

بعض محقق ان امراض  کا ذمہ دار غذاؤں اور ماحول میں پائے جانے والی مادوں کو قرار دیتے ہیں۔

ان امراض کا شکار ہونے کی وجوہات مختلف افراد میں مختلف ہو سکتی ہیں اور کسی ایک شخص میں کیا وجہ ہوگی؟  یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔

آٹو امیون یا خود مدافعتی امراض کی علامات

ان امراض کی علامات اس معاملے پر منحصر ہیں کہ جسم کا مدافعتی نظام جسم کے کن اجزاء کے خلاف متحرک ہے۔

جوڑوں میں درد، جلد میں خارش یا سوزش، ، بینائی کا زیاں، دل کی تکلیف، سانس میں مشکل  اور پھیپھڑوں سے خون  آنا ان امراض کی علامات ہو سکتی ہیں۔

اکثر یہ علامات کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔

ان میں سے بعض امراض جسم کے کسی ایک حصے کو زیادہ  متاثر کرتے ہیں جیسا کہ جوڑوں کو متاثر کرنے والے آٹو امیون  امراض ۔

جیسے برص جو صرف جلد کو متاثر کرتا ہے ۔

بعض دیگر  امراض پورے جسم کو نقصان پہنچانے لگتے ہیں اور ان کی علامات پورے جسم میں محسوس ہوتی ہیں جیسے سسٹیمک لیوپس ایریتھما ٹوسس  یا  جسے ایس ایل ای بھی کہتے ہیں۔

اینٹی باڈیز کے بارے میں آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔

اس مرض میں جسم  میں اپنے ہی جسم کے اجزاء کے خلاف اینٹی باڈیز بن جاتی ہیں جو اسے نقصان پہنچاتی رہتی ہیں۔ انسان کو جسم میں تھکن، بخار، جلد پر نشانات اور جوڑوں میں درد جیسی علامات محسوس ہوتی ہیں ، جو کبھی بڑھ جاتی ہیں ، کبھی کم ہو جاتی ہیں۔

آٹو امیون یا خود مدافعتی امراض کا علاج

ان امراض کا مکمل علاج تو نہیں ہوتا مگر ڈاکٹر حضرات ان کی شدت کم کرنے کے لیے مختلف دوائیں تجویز کرتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کے رد عمل کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ دوائیں سوزش  اور درد کم کرنے میں مددگا ر ثابت ہوتی ہیں۔

اس سے مرض کی علامات میں بہت بہتری آ جاتی ہے اور مریض اپنی زندگی کافی حد تک معمول کے مطابق گزار سکتا ہے۔