رمضان المبارک اور صحت
ڈاکٹر محمد یحییٰ نوری
رمضان کریم کا آغاز ہو چکا ہے۔
رب کائنات نے اس مہینے کے دو مقصد کا تعین کیا ہے۔
ایک یہ کہ اس کے بندے شکرگزاری اختیار کریں۔۔
اور دوسرا یہ کہ وہ پرہیزگار بندے بن جائیں۔۔
یہ دونوں اوصاف انسان کی صحت کی چاروں جہتوں یعنی جسمانی، نفسیاتی، سماجی اور روحانی صحت کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔
جو انسان شکرگزار ہوتا ہے وہ خوش رہتا ہے۔
اس کی نظر خود کو حاصل شدہ نعمتوں پر رہتی ہے ۔
اس میں حسد، کڑھن ، غم و غصہ اور ذہنی دباؤ نہیں پیدا ہوتے۔
اس کا طرز فکر مثبت ہو جاتا ہے۔
مثبت طرز فکر والا بندہ پر امید رہتا ہے۔
خوش رہتا ہے۔
حالات کا بہتری کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔
روزہ برداشت کی تربیت ہے۔
بھوک پیاس کی برداشت۔
غصے کی برداشت۔
جنسی خواہش کی برداشت۔
جس انسان میں برداشت پیدا ہوجائے کہ وہ ان چیزوں سے رک سکتا ہو جو عام حالات میں استعمال کرنے کی اسے اجازت ہے تو وہ ان چیزوں سے بھی رک سکتا ہے جو مضر صحت ہیں اور اس کےاور معاشرے کے لیے نقصان کا باعث ہیں۔
خواہش کے فوری پوری ہو جانے کی عادت انسان میں بے صبری پیدا کرتی ہے جو بہت سے جسمانی اور معاشرتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔
روزہ رکھنے سے ایک طرح سے انسان کی نفسیاتی تربیت ہوتی ہے جس کے اثرات سارا سال نظر آتے ہیں۔
روزے کی حالت میں انسان جب کھانے پینے سے طویل دورانیے تک پرہیز کرتا ہے تو اس کے جسم سے فاسد مادے خارج ہو جاتے ہیں۔
روزہ جسم کے مدافعتی نظام پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔
جسم میں شکر کی مقدار کم کرنے میں فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور اس دوران انسان اپنا وزن بھی کم کر سکتا ہے۔
روزہ انسان کو روحانی طور پر اپنے رب سے قریب کرتا ہے۔
جو لوگ روحانیت پر یقین رکھتے ہیں ان کی ذہنی اور جسمانی صحت بہتر ہوتی ہے۔
وہ پر امید رہتے ہیں اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی بھی ہے تو وہ اس سے مقابلہ کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ سارے فوائد انسان کو حاصل ہو سکتے ہیں اگر وہ روزے اس انداز سے رکھے جس انداز سے رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
امید ہے کہ ہم سب اس ماہ رمضان کے روزوں سے بہترین انداز میں مستفید ہو سکیں۔
Thanks for such a useful information!