ڈاکٹر حافظ فصیح احمد
عالمی تحقیق کے مطابق پاکستان ہیپاٹائیٹس بی کے حوالے سے دنیا کے وبائی خطے میں شامل ہے۔
وطن ِ عزیز میں روزانہ کئی سو افراد ہیپاٹائیٹس بی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
مزید اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائیٹس بی کے موجودہ مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس میں ہر سال ایک لاکھ مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اس بگڑتی صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے مؤثر علاج کی فراہمی کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر اسکریننگ کا عمل بھی ناگزیر ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم سب اس مرض کے بارے میں نہ صرف خود آگاہی حاصل کریں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی اس بارے میں معلومات فراہم کریں تاکہ ہیپاٹائیٹس کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
ہیپاٹائیٹس کیا ہے؟
جگر میں سوزش کی بیماری کو طبی اصطلاح میں ہیپاٹائیٹس کہا جاتا ہے جس میں جگر کے خلیے اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں جسم کے بہت سے معمولات برقرار نہیں رہ پاتے۔
ہیپاٹائیٹس کی نمایاں ترین وجوہات میں مختلف اقسام کے وائرس شامل ہیں۔
یہ وائرس مختلف ذرائع سے انسانی جسم میں داخل ہو کر جگر کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سی ادویات، نشہ آور اشیاء اور شراب نوشی وغیرہ بھی ہیپاٹائیٹس کا سبب بن سکتے ہیں۔
وائرس سے ہونے والے ہیپاٹائیٹس کی پانچ اقسام ہیں۔
جنہیں انگریزی کے پانچ حروف یعنی اے، بی، سی، ڈی اور ای کے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
اس مضمون میں ہم ہیپاٹائیٹس بی اور اس سے منسلک ہیپاٹائیٹس ڈی کے بارے میں کچھ ضروری معلومات فراہم کر رہے ہیں۔
ہیپاٹائیٹس بی- مرض، علامات، تشخیص، علاج، بچاؤ
ہیپاٹائیٹس بی: ایک خطرناک متعدی مرض
ہیپاٹائیٹس بی ایک خطرناک مرض ہے جس میں جگر کے خلیوں میں سوزش آجانے کے سبب جگر اپنا کام صحیح طرز پر جاری نہیں رکھ پاتا۔
جگر کی خرابی کی وجہ سے انسانی جسم میں بہت سی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
ہیپاٹائیٹس بی وائرس کہاں پایا جاتا ہے اور انسان تک کیسے پہنچتا ہے؟
ہیپاٹائیٹس بی کا سبب بننے والا وائرس ہیپاٹائیٹس بی وائرس کہلاتا ہے جو صرف انسانی جسم کی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے۔
جیسا کہ انسانی خون، لعاب دہن اور جنسی رطوبتیں وغیرہ۔
ہیپاٹائیٹس بی سے متاثرہ خون کی منتقلی، استعمال شدہ سرنجز کا دوبارہ استعمال، ہیپاٹائیٹس بی سے متاثرہ شخص کے ساتھ جنسی تعلق یہاں تک کہ متاثرہ شخص کے کھلے ہوئے زخم بھی ہیپاٹائیٹس بی وائرس کو صحت مند انسانوں میں منتقل کرنے کے ذرائع ہیں۔
اس کے علاوہ حمل کے دوران یہ وائرس متاثرہ ماں سے بچے میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔
ہیپاٹائیٹس بی انفیکشن کی کتنی اقسام ہیں؟
مرض کی نوعیت کے اعتبار سے ہیپاٹائیٹس بی وائرس دو مختلف طرز کے انفیکشن کرواتا ہے۔
جن میں سے ایک عارضی انفیکشن جبکہ دوسرا دائمی انفیکشن کہلاتا ہے۔
عارضی انفیکشن اگرچہ جلد ختم ہو جاتا ہے تاہم کچھ افراد میں یہ شدت اختیار کر کے اچانک موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
دوسری جانب دائمی انفیکشن میں جگر رفتہ رفتہ متاثر ہو کر بالآخر بالکل سکڑ جاتا ہے جسے طبی زبان میں سِروسِزکہتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ افراد میں دائمی انفیکشن کی وجہ سے جگر کا سرطان بھی ہوسکتا ہے۔
ہیپاٹائیٹس بی کی کیا علامات ہوتی ہیں؟
ہیپاٹائیٹس بی ابتدائی طور پر غیر مخصوص علامات کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے۔
جیسا کہ پیٹ میں درد ہونا، الٹی اور متلی ہونا، بھوک کا نہ لگنا وغیرہ۔
جگر کی دیگر بیماریوں کی طرح ہیپاٹائیٹس بی میں بھی یرقان کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ گہرے پیلے رنگ کا پیشاب آنا، آنکھوں کی سفیدی اور تمام جلد کا پیلا پڑ جانا وغیرہ۔
اگر علاج نہ کروایا جائے تو شدید علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
جیسا کہ ورم آجانے کی وجہ سے جگر بڑھ جانا، پیٹ میں پانی بھر جانا اور فاسد مادے کے جسم میں جمع ہوجانے سے مریض کا کومے یعنی مکمل غنودگی میں چلے جانا۔
اس کیفیت میں مریض کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
ہیپاٹائیٹس بی کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟
ہیپاٹائیٹس بی کی تشخیص کے مختلف ذرائع ہیں جو انفیکشن کی مختلف اقسام کی تفریق میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
خون میں مختلف اینٹی جینز (یعنی وائرس کے نہایت چھوٹے ٹکڑے) اور کئی اقسام کی اینٹی باڈیز کی موجودگی ہیپاٹائیٹس بی کی نہ صرف تصدیق کرتی ہے بلکہ ان کی مدد سے عارضی اور دائمی انفیکشن میں فرق بھی کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ جگر کی کارکردگی جانچنے اور مرض کی شدت کا تعین کرنے کے لیے خون کے مختلف ٹیسٹ اور جگر کے الٹراساؤنڈ یا سی ٹی اسکین کے ذریعے مدد لی جاتی ہے۔
کیا اس کا علاج ممکن ہے؟
ہیپاٹائیٹس بی کا عارضی انفیکشن اگرچہ کم خطرناک ہے اور نوے سے پچانوے فیصد مریض غیر مخصوص دواؤں کے استعمال سے ہی صحتیاب ہوجاتے ہیں۔
تاہم پانچ سے دس فیصد مریض زندگی میں آگے چل کر دائمی انفیکشن میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
جبکہ ایک فیصد مریضوں میں جگر مکمل ناکارہ بھی ہوسکتا ہے۔
دائمی انفیکشن میں مبتلا مریضوں کا مخصوص دواؤں سے علاج کیا جاتا ہے جس کا دورانیہ تین سے چھ ماہ پر محیط ہوسکتا ہے تاہم یہ مرض سو فیصد ختم نہیں ہوتا۔
دائمی انفیکشن کا مکمل اور دیرپا علاج جگر کی پیوندکاری سے ہی ممکن ہے جو کہ ایک نہایت مہنگا اور پیچیدہ طریقہء علاج ہے۔
اس سے بچاؤ کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟
کسی بھی دوسرے مرض کی طرح ہیپاٹائیٹس بی سے بچاؤ کا مؤثر ترین ذریعہ یہ ہے کہ اس کی منتقلی کو روکا جائے۔
اس کے لیے مندجہ ذیل باتوں پر سختی سے عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔
خون کی منتقلی سے پہلے دیگر امراض کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائیٹس بی وائرس کی اسکریننگ یعنی جانچ پڑتال کو یقینی بنایا جائے۔
استعمال شدہ سرنجز کو فوری طور پر تلف کردیا جائے تاکہ انہیں دوبارہ استعمال میں نہ لایا جا سکے۔
ضرورت کے پیش نظر زوجین کے ٹیسٹ کروائے جائیں اور ہیپاٹائیٹس بی کی موجودگی کا پتہ لگایا جائے۔
اس کے علاوہ متاثرہ خواتین کا حاملہ ہونے سے قبل اور حمل کے دوران بھی ہیپاٹائیٹس بی کا ٹیسٹ کیا جائے اور بیماری کی تشخیص ہوجانے کی صورت میں ماں اور نومولود بچے دونوں کا ممکنہ علاج کیا جائے۔
اگرچہ ہیپاٹائیٹس بی وائرس لعاب دہن میں بھی پایا جا سکتا ہے تاہم اس ذریعے سے اس کی خاطر خواہ منتقلی تاحال ثابت نہیں ہوسکی ہے۔
اس کے علاوہ ہیپاٹائیٹس بی کی ویکسین بھی دستیاب ہے جسے عالمی ادارہ صحت نے اپنے ویکسینیشن شیڈول میں بھی شامل کیا ہے۔
ہیپاٹائیٹس ڈی : ہیپاٹائیٹس بی کا ساتھی
ہیپاٹائیٹس ڈی انفیکشن اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ ایک صحت مند انسان کو متاثر نہیں کر سکتا۔
بلکہ ہیپاٹائیٹس ڈی انفیکشن صرف ان مریضوں میں ہوتا ہے جو پہلے سے ہیپاٹائیٹس بی میں مبتلا ہوں۔
ہیپاٹائیٹس ڈی وائرس کی انسانی جسم تک رسائی انہی ذرائع سے ہوتی ہے جسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔
نیز ان دونوں بیماریوں کی تمام علامات بھی یکساں ہوتی ہیں۔
مزید یہ کہ اگر ہیپاٹائیٹس بی کا علاج کرلیا جائے تو ہیپاٹائیٹس ڈی انفیکشن بھی اس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے۔
جگر، انسانی جسم کے اہم ترین اعضاء میں سے ایک ہے جس کی اہمیت و افادیت پر اہل طب اور اہل ادب بیک وقت متفق ہیں۔
اس کا خیال رکھنا، اسے صحت مند رکھنا بہت ضروری ہے۔۔
بقول شاعر
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
Recent Comments