ڈینگی بخار: ایک خطرناک آزار-علامات-تشخیص اور احتیاطی تدابیر

ڈاکٹر حافظ فصیح احمد 

ایک سچی کہانی

عائشہ گزشتہ تین چار روز سے اپنے بچپن کی سہیلی مریم سے رابطے میں نہ تھی۔ اس نے کئی مرتبہ رابطے کرنے کی کوشش کی لیکن میسج کا کوئی جواب آیا نہ فون کال ریسیو کی گئی۔ یوں اچانک رابطہ منقطع ہوجانے پر عائشہ کو شدید پریشانی لاحق ہوئی۔ اس نے مریم کے گھر والوں سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی عزیز دوست ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجانے کے باعث کومے میں چلی گئی ہے اور فی الحال شہر کے ایک بڑے ہسپتال کے آئی۔سی۔یو میں وینٹیلیٹر پر زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ چند روز قبل مریم کو شدید بخار ہوا جس کے بعد اسے تشویشناک حالت میں ہسپتال لایا گیا جہاں اس کا مرض ڈینگی تشخیص ہوا۔ ڈاکٹرز کے مطابق اکیس سالہ مریم کو شدید ترین نوعیت کا ڈینگی بخار ہوا تھا جس کے باعث اس کا دماغ، جگر اور گردے شدید متاثر ہوئے۔ نتیجتاً وہ مکمل بیہوشی میں چلی گئی اور مصنوعی سانس کی مشین یعنی وینٹلیٹر بھی لگانا پڑا۔ اللہ کے فضل اور بہترین طبی نگہداشت کے باعث مریم کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور تا دم تحریر وہ ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ 

اس سچے واقعے کو یہاں تحریر کرنے کا مقصد یہ یاد دلانا ہے کہ ڈینگی بخار ایک ایسی بیماری ہے جس سے بچاؤ بہرحال ممکن ہے۔ تاہم اگر یہ مرض شدت اختیار کر لے تو زندگی اور موت کی کشمکش میں بھی مبتلا کر سکتا ہے۔

ڈینگی بخار: مرض، علامات، تشخیص، علاج، بچاؤ

اگرچہ ڈینگی بخار جیسی بیماری کے تاریخی آثار اٹھارویں صدی عیسوی تک پھیلے ہوئے ہیں۔

تاہم ڈینگی وائرس سب سے پہلے جاپان میں سن 1943 عیسوی میں دریافت ہوا۔

وطنِ عزیز پاکستان میں ڈینگی بخار کے ابتدائی کیسز سن 1994 عیسوی میں رپورٹ ہوئے۔

سن 2005 عیسوی میں شہر کراچی میں ڈینگی نے پہلی مرتبہ وبائی صورت اختیار کی جس میں بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

بعد ازاں تقریباً ہر سال ملک بھر سے ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سندھ اور پنجاب کے علاقے سر فہرست ہیں۔

ڈینگی وائرس کیا ہے اور کہاں پایا جاتا ہے؟ 

ڈینگی بخار کا سبب بننے والا ڈینگی وائرس مچھروں کی ایک خاص قسم “ایڈس ایجپٹائے” کے لعاب دہن میں پرورش پاتا ہے۔

متاثرہ مچھر کے کاٹنے سے ڈینگی وائرس صحت مند انسانوں کے خون میں شامل ہو کر اپنی افزائش شروع کردیتا ہے۔

یہ مخصوص مچھر ایشیا، افریقہ اور امریکا کے بیشتر علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

اس مچھر کی شناخت اس کے سیاہ  جسم اور ٹانگوں پر موجود سفید دھبوں سے با آسانی کی جا سکتی ہے۔

ڈینگی وائرس کی تاحال چار اقسام رپورٹ کی گئی ہیں جو کم و بیش ایک جیسی علامات رکھنے والے ڈینگی بخار کا سبب بنتی ہیں۔

ڈینگی بخار کی کیا علامات ہوتی ہیں؟

متاثرہ مچھر کے کاٹنے کے تقریباً ایک ہفتے بعد ڈینگی بخار کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

ابتدا میں مرض کی غیر مخصوص علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ تیز بخار ہونا، جسم پر کپکپی طاری ہونا، سر، کمر، پٹھوں اور جوڑوں میں درد کے باعث تمام جسم میں شدید تھکاوٹ کا احساس ہونا، آنکھوں میں دکھن رہنا اور آنکھوں سے پانی بہنا وغیرہ۔

اس دوران کچھ مریضوں میں بخار کے ساتھ جلد پر سرخ دانے اور دھبے بھی ظاہر ہوتے ہیں۔

ڈینگی کا بخار شدید اور مستقل نوعیت کا ہوتا ہے جو کہ عام طور پر سات سے آٹھ روز تک جاری رہتا ہے۔

اس دوران مرض معمولی یا شدید علامات کے ساتھ اپنا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔

 

ڈینگی کی مختلف اقسام کیا ہیں؟ 

عالمی ادارۂ صحت نے ڈینگی کی مختلف علامات کے سبب اس مرض کی تین اقسام بتلائی ہیں۔

عام ڈینگی بخار: اس میں مریض کو بخار کے ساتھ  غیر مخصوص علامات جیسا کہ جسم میں درد اور تھکاوٹ، الٹی یا متلی وغیرہ کی شکایات رہتی ہیں اور جلد پر سرخ دانے اور دھبے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔

اس دوران مختلف ٹیسٹ کے ذریعے ڈینگی کی تشخیص کی جاتی ہے اور خطرناک علامات کے بارے میں آگاہی دینے کے بعد مریض کا علاج گھر میں کیا جا سکتا ہے۔

خطرناک علامات والا ڈینگی بخار: مرض کی اس قسم میں خطرناک علامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ پیٹ میں شدید درد ہونا، مستقل الٹی کی شکایت رہنا، جگر کا بڑھ جانا، دانتوں یا ناک سے خون آنا، پیٹ یا پھیپھڑوں میں پانی بھر جانا وغیرہ۔

ایسی صورت میں مریض کو ہسپتال میں داخل کر کے مختلف اقسام کے سیال اور مائع جات کے ذریعے ان علامات کا علاج کیا جاتا ہے۔ 

شدید ترین ڈینگی بخار: یہ ایک میڈیکل ایمرجنسی ہے جس کا علاج ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں کرنا ناگزیر ہے۔

مرض کی یہ شدید ترین صورت جسم کے مختلف اعضاء پر اثر انداز ہوتی ہے۔

خون میں موجود پلازما کے ضیاع کے نتیجے میں مریض شاک میں چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے دل بھی اپنا کام صحیح طرز پر جاری نہیں رکھ پاتا۔

گردے عارضی طور پر اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور فاضل مادے خون میں جمع ہونے لگتے ہیں۔

نتیجتاً مریض مکمل بے ہوشی یعنی کوما میں چلا جاتا ہے۔

جگر کے معمولات پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہوجاتے ہیں۔

شریانوں اور رگوں میں خون جمنے لگتا ہے اور جسم کے مختلف حصوں سے خون جاری بھی ہو سکتا ہے۔

ان تمام علامات کے سبب مریض کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

ڈینگی کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟ 

اگر مریض کا تعلق وبائی علاقے سے ہے تو ظاہری علامات پر بھی ڈینگی کا خدشہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

تاہم مرض کی حتمی تشخیص کے لیے چند بنیادی ٹیسٹ ضرور کروانے چاہئیں۔

مریض کے خون میں مخصوص اینٹی باڈیز کا بڑھ جانا، ڈینگی وائرس کے مخصوص این۔ایس۔ون اینٹیجن کا خون میں پایا جانا، یہ عوامل ڈینگی بخار کی تشخیص کو ثابت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ خون میں پلیٹ لیٹس اور سفید خلیوں کی بتدریج کمی ہونا اور خون کا گاڑھا ہوجانا مرض کی شدت کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔

ڈینگی کا علاج کیسے کیا جائے؟ 

کسی بھی دوسرے وائرس کی طرح ڈینگی وائرس بھی اپنی افزائش کی مدت پوری کر کے اکثر اوقات خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔

تاہم خطرناک علامات پر نظر رکھنا اور ان کا مؤثر علاج کرنا مریض کی زندگی کے لئے ناگزیر ہے۔

عام ڈینگی بخار کے علاج کے لیے مریض گھر میں مکمل آرام کرتے ہوئے پانی، جوس اور دیگر مائع جات کا بکثرت استعمال کرے۔

درد سے افاقے کے لیے ڈاکٹر کے مشورے سے عام پین کلزر جیسا کہ پیراسٹامول کا استعمال کرے۔ (یاد رہے کہ ڈینگی میں ایسپیرین یا اس جیسی ادویہ کا استعمال مزید نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے)

اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر مریض کے خون کی مکمل جانچ پر مبنی ٹیسٹ “سی۔بی۔سی” کروایا جائے۔

کسی بھی خطرناک علامت کے ظاہر ہوتے ہی فوری طور پر مریض کو قریبی اسپتال کی ایمرجنسی میں دکھایا جائے۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ ڈینگی کی دیگر خطرناک اقسام کا علاج گھر میں ممکن نہیں۔

لہذا ایسی صورت میں مریض کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیں۔

کیا ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے 

مچھروں کی افزائش کی روک تھام کے ذریعے ڈینگی بخار کی وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

ایشیا اور افریقہ کے بہت سے علاقوں کے تقریباً سو ممالک ڈینگی کے وبائی خطے میں شامل ہیں۔

عام طور پر برسات کا موسم ان مچھروں کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے۔

ایڈس ایجپٹائے نامی یہ مچھر صاف اور ٹھہرے ہوئے پانی میں پرورش پاتا ہے جیسا کہ جوہڑ، تالاب، حتی کہ گھروں میں موجود پانی کے کھلے برتن وغیرہ۔

لہذا ضروری ہے کہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے، تالابوں میں مچھروں کے انڈوں کو مارنے والی ادویات استعمال کی جائیں، گھروں میں پانی کے برتنوں کو ہمیشہ ڈھانپ کر رکھا جائے۔

اس کے علاوہ مچھروں کو بھگانے کے طریقے بھی اپنانے چاہیں جیسا کہ مچھر دانی، کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں اور مچھر بھگانے والی ادویات وغیرہ۔

ماہرین کے مطابق سورج کے طلوع اور غروب ہوتے وقت یہ مچھر سب سے زیادہ متحرک ہوتے ہیں لہذا ان اوقات میں حفاظتی تدابیر کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔

ڈینگی بخار سے صحت یاب ہوجانے کے بعد اس مرض میں دوبارہ مبتلا ہونا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

ڈینگی وائرس کی ویکسین دنیا کے چند ہی ممالک میں دستیاب ہے جس کی افادیت پر تاحال تحقیق جاری ہے۔

لہذا ڈینگی سے بچاؤ کا واحد اور مؤثر ترین طریقہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے۔