مرگی کا مناسب علاج: نارمل زندگی اور بہتر سماج
بقلم ڈاکٹر حافظ فصیح احمد
اس نوجوان کی عمر بارہ برس تھی جب پہلی مرتبہ اسے مرگی کے عارضے کی تشخیص ہوئی۔ ڈاکٹر نے دوا تجویز کی تو ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ یہ دوا تمام عمر استعمال کرنا پڑے گی۔ یہ سن کر نوجوان اور اس کے گھر والے وقتی طور پر فکرمند ہوگئے تاہم نوجوان نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے جسمانی عارضے کو فلاحی کاموں میں رکاوٹ نہیں بننے دے گا۔ کئی برس گزر گئے۔ نوجوان نے اپنے ڈاکٹر کی تجویز پر دل و جاں سے عمل کیا، محنت اور لگن سے ایک عظیم الشان فلاحی ادارہ “ایدھی فاؤنڈیشن” قائم کیا جس کی بے مثال خدمات پر اہل وطن بلکہ تمام انسانیت کو ہمیشہ فخر رہے گا۔ عبد الستار ایدھی نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے مرگی کی دوا کا باقاعدگی سے استعمال کیا، ایک بھرپور صحت مند زندگی گزاری اور انسانیت کی بے مثال خدمت کی۔
مرگی یا ایپیلیپسی کیا ہے؟
مرگی جسے انگریزی طبی اصطلاح میں ایپیلیپسی کہتے ہیں، ایک دماغی عارضہ ہے جس میں دماغی خلیوں کے برقی نظام میں خلل واقع ہوتا ہے اور انسانی جسم میں مختلف علامات اور کیفیات ظاہر ہوتی ہیں۔
مرگی ایک پیچیدہ دماغی کیفیت کا نام ہے جسے اکثر اوقات بیماری یا مرض کے بجائے ایک عارضہ یا خلل کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
تاہم کچھ لوگوں میں مرگی کی علامات کسی پوشیدہ بیماری کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہیں۔
دماغی خلیوں کا برقی نظام کیا ہے؟
دماغی خلیوں کو طبی اصطلاح میں “نیورونز” کہتے ہیں۔
یہ نیورونز تمام جسم کی حرکات و سکنات، حسیات و احساسات کو قابو میں رکھتے ہیں۔
اس کے لیے نیورونز میں قدرتی طور پر ایک برقی نظام قائم رہتا ہے۔
اگر اس برقی نظام میں کوئی خرابی یا خلل آ جائے تو مرگی کا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔
کیا مرگی کا دورہ محض جھٹکوں کا نام ہے؟
مرگی کی بہت سی پیچیدہ اقسام ہیں جن میں سے کئی اقسام میں پورا انسانی جسم یا جسم کا کوئی حصہ کچھ دیر کے لیے جھٹکوں کے زیر اثر آجاتا ہے۔
تاہم مرگی کا دورہ محض جھٹکوں کا نام نہیں ہے
مرگی کی بہت سی اقسام ایسی بھی ہیں کہ جن میں جھٹکے سرے سے موجود ہی نہیں ہوتے۔
مرگی کے دوروں کی مختلف اقسام اور علامات کیا ہیں؟
مرگی ایک پیچیدہ دماغی عارضہ ہے جس کی بہت سی اقسام ہیں۔
مرگی میں مبتلا شخص میں اس عارضے کی قسم کا تعین ضروری بھی ہے اور دقت طلب بھی۔۔
ماہرین نے مرگی کے دوروں کی دو بنیادی اقسام بتائی ہیں۔۔ جزوی اور کلیاتی۔۔
دماغ کے کسی مخصوص حصے میں جنم لینے والا برقی خلل جزوی دورے کا سبب بنتا ہے۔۔
جبکہ کلیاتی دورے میں دماغ کا اکثر حصہ برقی خلل کے زیر اثر آجاتا ہے۔۔
جزوی دورے میں انسان اپنا ہوش نہیں گنواتا۔۔ اور اکثر اوقات ماحول سے لاتعلق بھی نہیں ہوتا۔۔
دوسری جانب کلیاتی دورے میں انسان بیہوش ہو سکتا ہے۔۔ کچھ دیر کے لیے اپنے ماحول سے بالکل لاتعلق ہو سکتا ہے۔۔ اس کے جسم کے پٹھے اکڑاؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔۔
کلیاتی اور جزوی دوروں کی بہت سی ذیلی اقسام بھی ہیں۔۔
جزوی دورے کی کیفیت اس بات پر منحصر ہے کہ دماغ کے کس مخصوص حصے میں برقی خلل واقع ہو رہا ہے۔۔
جزوی دورے وقتی طور پر بینائی کو متاثر کرسکتے ہیں۔۔ یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کچھ دیر کے لیے ماؤف ہوسکتی ہے۔۔ یا چند لمحوں کے لیے ماحول سے لاتعلقی ہوسکتی ہے۔۔
کلیاتی دوروں کی ایک قسم غیر حاضر دورے خصوصی طور پر بچپن یا لڑکپن میں ظاہر ہوتے ہیں جس میں بچے کی کیفیت کچھ یوں ہوجاتی ہے جیسے وہ خلا میں بے مقصد گھور رہا ہو یا دن میں خواب دیکھ رہا ہو یا تیز تیز پلکے جھپکا رہا ہو۔۔
مرگی کی اس قسم کی تشخیص مشکل ہوتی ہے کیونکہ بچوں میں ان غیر حاضر دوروں کا دورانیہ چند سیکنڈ پر مشتمل ہوتا ہے۔۔
یہ غیر حاضر دورے دن میں بیس تیس مرتبہ ہوسکتے ہیں اور ہر مرتبہ بچہ چند سیکنڈ کے لیے ارد گرد کی دنیا سے بالکل لا تعلق ہوجاتا ہے، نتیجتاً اسکول میں اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔۔
کلیاتی دوروں کی ایک قسم میں سارا بدن اچانک اکڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان دھڑام سے گر پڑتا ہے۔۔
اس کے بعد سارا جسم بالخصوص بازو اور ٹانگیں تیز تیز ہلنے لگتے ہیں جیسے بجلی کے زوردار جھٹکے لگ رہے ہوں۔۔
یہ کیفیت چند سیکنڈ سے کئی منٹ تک رہتی ہے جس کے بعد انسان بیہوش ہو جاتا ہے۔۔
اس قسم کا دورہ دیکھنے والوں کو خوفزدہ کر سکتا ہے اگر انہیں اس کا بہتر ادراک نہ ہو۔۔
اس کے علاوہ مرگی کے کچھ دوروں میں بازو یا ٹانگ غیر ارادی طور پر زورادر جھٹکا کھاتے ہیں جسے “کلونس” کہتے ہیں۔۔
کیا مرگی کے دورے سے قبل اور بعد میں بھی کوئی علامات ظاہر ہوتی ہیں؟
بہت سے لوگوں میں مرگی کے دورے سے قبل کچھ مخصوص علامات ظاہر ہوتی ہیں۔۔
جیسا کہ علامتی روشنیاں دکھائی دینا، آوازیں سنائی دینا، کوئی بو یا ذائقہ محسوس ہونا، سر میں درد ہونا، اس کے علاوہ رویے میں اچانک بدلاؤ آنا جیسا کہ بے سبب چڑچڑاپن، خوف، یا غصہ وغیرہ۔۔
ان علامات کے کچھ دیر بعد مرگی کا کوئی دورہ پڑ سکتا ہے جس کی کیفیت مرگی کی مخصوص قسم پر منحصر ہے۔۔
دورہ ختم ہونے کے بعد انسان بیہوش ہو سکتا ہے۔۔
ہوش میں آنے کے بعد سر درد، جسم اور پٹھوں میں درد، شدید تھکاوٹ اور ذہنی کنفیوژن کی شکایات بھی عام ہیں۔۔
مرگی کے عارضے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟
مرگی میں مبتلا دو تہائی افراد میں اس عارضے کی کوئی واضح وجہ معلوم نہیں ہو پاتی۔۔
ماہرین کے مطابق ایسے افراد میں جینیاتی اور خاندانی عوامل کار فرما ہوسکتے ہیں۔۔
دیگر افراد میں مرگی کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں جیسا کہ۔۔
دماغی چوٹ۔۔
دماغی رسولی(برین ٹیومر)۔۔
فالج(اسٹروک)۔۔
شریانوں کے امراض۔۔
ٹی بی۔۔
بہت سی اقسام کے انفیکشنز وغیرہ۔۔
مرگی کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
موجودہ دنیا کی آبادی کے ایک فیصد افراد مرگی کے عارضے میں مبتلا ہیں۔۔
ایک تحقیق کے مطابق مرگی میں مبتلا بہت سے لوگوں کی تشخیص نہیں ہو پاتی جس کی بنیادی وجہ لاعلمی ہے۔۔
یاد رکھیں! ہر دورہ مرگی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔۔
مرگی کی تشخیص کے لیے کچھ نکات کا پورا ہونا ضروری ہے۔۔
ماہرین کے مطابق مرگی کی تشخیص تب ہوتی ہے جب کسی صحت مند انسان میں کم از کم دو یا زائد دورے بظاہر خود بخود طاری ہوجائیں جن میں بیرونی عوامل کا کوئی دخل نہ ہو۔۔
پہلے دورے کے فوری بعد دماغ کے ماہر معالج سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ درست تشخیص ہو سکے۔۔
مبتلا شخص کے گھر والوں کا بیان مرگی کی درست تشخیص میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔۔
اس کے علاوہ چند ٹیسٹ جیسا کہ ای۔ای۔جی، ایم۔آر۔آئی یا سی۔ٹی۔اسکین کے ذریعے بھی تشخیص میں مدد لی جاتی ہے۔۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شدید بخار اور نمکیات کا عدم توازن بھی دوروں کا سبب بن سکتے ہیں لہذا ضروری نہیں کہ ایسے ہر مریض کو مرگی ہی ہو۔۔
مرگی کا علاج کیسے کیا جاتا ہے؟
مرگی کے دوروں پر بہتر طور پر قابو پانے کے لیے شخصی تعاون نہایت اہم ہے کیونکہ اسکا علاج تمام عمر جاری رکھنا پڑ سکتا ہے۔۔
طریقہء علاج کا تعین کرنے کے لیے مبتلا شخص اور اس کے گھر والوں سے مشاورت کرنا ضروری ہے تاکہ خاطر خواہ کامیابی حاصل ہو سکے۔۔
مرگی کے علاج کے لیے دو طریقے موجود ہیں۔۔
دوائیں۔۔
اور سرجری۔۔
اکثر اوقات مرگی کا علاج دواؤں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔۔
ماہر معالج تشخیص کے بعد بہترین دوا کا انتخاب کرتا ہے۔۔
اگر ایک دوا سے دورے قابو میں نہ آسکیں تو اس کی جگہ دوسری دوا شروع کی جاتی ہے اور پہلی دوا کو رفتہ رفتہ ترک کیا جاتا ہے۔۔
کبھی کبھار ایک سے زائد دوائیں بھی استعمال کرنا پڑ سکتی ہیں۔۔
بہت سی ادویہ دورانِ حمل نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں لہذا ماہر معالج سے مشورہ ضرور کرلینا چاہیے۔۔
اگر مرگی کے دورے دواؤں سے خاطر خواہ قابو میں نہ آسکیں تو دوروں کا سبب بننے والا دماغی حصہ سرجری کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے۔۔
اس کے علاوہ “ویگس نس” کو متحرک کر کے بھی مرگی کے دوروں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔۔
کیا دواؤں کے ذریعے دورے مکمل طور پر رک جاتے ہیں؟
ستر فیصد افراد میں دواؤں کے ذریعے دورے مکمل طور پر رک جاتے ہیں۔۔
البتہ تیس فیصد افراد دواؤں کے باوجود دوروں میں مبتلا رہتے ہیں۔۔
کیا مرگی کا دورہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے؟
بہتر علاج نہ کرنے کی صورت میں کبھی کبھار مرگی کا دورہ سانس میں رکاوٹ کا سبب بن کر زندگی کے لیے شدید خطرہ بن سکتا ہے۔۔
مرگی میں مبتلا شخص کو کیا احتیاط کرنی چاہیے؟
مرگی میں مبتلا شخص کے دورے اگر قابو میں نہیں رہتے تو ایسے میں روزمرہ امور میں احتیاط برتنا ضروری ہے۔۔
مثلاً ڈرائیونگ سے گریز۔۔
پانی کے ذخائر یا دیگر غیر محفوظ جگہوں کے ارد گرد خصوصی احتیاط۔۔
دورے کا سبب بننے والے عوامل سے حتی الامکان دوری۔۔
مرگی میں مبتلا شخص کے گھر والے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
سب سے پہلے تو مرگی کی درست تشخیص کے لیے گھر کے افراد یا دیگر عینی شاہدین کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔۔
اس کے علاوہ دواؤں کا پابندی سے استعمال کرنے میں بھی گھر والوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔۔
چونکہ یہ عارضہ مبتلا شخص کی معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا جذباتی سہارے کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔۔
مبتلا شخص کے گھر والے اور دیگر احباب بہتر اور درست معلومات حاصل کر کے اور ماہرین کے مشوروں پر عمل پیرا ہو کر اپنا بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔۔
یاد رکھیں۔
پابندی سے علاج کے ذریعے مرگی جیسے عارضے کو قابو میں رکھ کر زندگی کے اکثر امور بخوبی سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔
مرگی کے عالمی دن کے موقع پر عالمی ادارہ صحت کا پیغام ہے کہ مرگی کو علاج کے ذریعے شکست دیجیے۔
Recent Comments