ملیریا سے بچاؤ ممکن اور آسان
ڈاکٹر حافظ فصیح احمد
دنیا کی نصف آبادی ملیریا کی زد پر ہے۔
افریقہ، جنوبی اور وسطی ایشیاء، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی امریکا کے پچانوے ممالک میں ملیریا کے مریض پائے جاتے ہیں۔
ہر سال دو کروڑ سے زائد افراد ملیریا میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً چار لاکھ افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
وطنِ عزیز پاکستان کی نصف آبادی ملیریا سے متاثرہ علاقوں میں رہتی ہے۔
یہاں ہر سال تقریباً پینتیس لاکھ افراد ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں۔
مون سون کے موسم کے بعد جولائی سے نومبر کے درمیان ملیریا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ملیریا ایک بہت قدیم مرض ہے۔
لاکھوں سال پرانی زمینی دریافتوں میں ملیریا کے آثار پائے گئے ہیں۔
یہاں تک کہ مصر کے بادشاہوں کی حنوط شدہ لاشوں میں سے بعض میں ملیریا کے جراثیم پائے گئے ہیں۔
ملیریا کیا ہے؟
ملیریا دراصل ایک قسم کا بخار ہے جس کا سبب بننے والے جراثیم “پلازموڈیم” ایک خاص قسم کے مچھر کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔
پلازموڈیم کے جراثیم مادہ “اینا فیلس” یا چند اور قسم کے مچھروں کے لعاب دہن میں پائے جاتے ہیں اور متاثرہ مچھر کے کاٹنے سے انسانی خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔
خون میں داخل ہونے کے فوراً بعد یہ جراثیم جگر کے خلیوں میں پہنچ کر اپنی افزائشِ نسل شروع کر دیتے ہیں۔
اس افزائش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جراثیم خون کے سرخ خلیوں میں داخل ہو کر وہاں بھی اپنی افزائش کرتے ہیں۔
نتیجتاً سرخ خلیوں کے پھٹنے پر پلازموڈیم کے خطرناک جراثیم مختلف اعضاء تک پہنچ کر ملیریا کی علامات کا سبب بنتے ہیں۔
ملیریا کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
ملیریا کی ابتدا اونچے درجے کے بخار سے ہوتی ہے اور جسم کا درجۂ حرارت ایک سو دو درجے فارین ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔
ملیریا کا بخار عموماً ہر دوسرے اور تیسرے دن بار بار ہوتا ہے۔
جسم میں کپکپی کے ساتھ بخار چڑھتا ہے اور درجۂ حرارت بتدریج بڑھ کر دوبارہ نارمل ہو جاتا ہے۔
اڑتالیس یا بہتر گھنٹوں کے بعد بخار کی یہی کیفیت دہرائی جاتی ہے۔
بخار کے علاوہ ملیریا کی دیگر علامات میں جسم پر کپکپی، سر درد، پیٹ درد، جسمانی تھکاوٹ وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مریض کے جسم میں پیلیا( یرقان) کی علامات بھی ظاہت ہو سکتی ہیں۔
کیا ملیریا خطرناک یا جان لیوا بیماری ہے؟
ملیریا کی مختلف اقسام ہیں جن میں سے کچھ کافی خطرناک یہاں تک کہ جان لیوا بھی ہوتی ہیں۔
اگر ملیریا دماغ تک پھیل جائے تو جسم کو جھٹکے لگ سکتے ہیں اور مریض کوما یعنی مکمل بیہوشی میں جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ گردے اچانک کام کرنا چھوڑ سکتے ہیں اور جگر بھی شدید متاثر ہو سکتا ہے۔
خون کی ساخت اور کیمائی حالت خراب ہو جائے تو مریض شاک میں جا سکتا ہے۔
ملیریا کی تشخیص کیسے ہوتی ہے؟
مریض کی علامات کو دیکھتے ہوئے ملیریا کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔
اگر مریض نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ملیریا سے متاثر علاقوں میں سفر کیا ہو تو ملیریا کا خدشہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
تاہم حتمی تشخیص کے لیے خون کے کچھ ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں جن میں پلازموڈیم کے جراثیم کی موجودگی کو پرکھا جاتا ہے۔
اگر ایک مرتبہ ٹیسٹ کروانے پر ملیریا کے جراثیم دکھائی نہ دیں تو دوسرے اور تیسرے دن اس ٹیسٹ کو دہرایا بھی جا سکتا ہے۔
مرض کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے خون کی مکمل جانچ(سی۔بی۔سی)، جگر اور گردوں کے بنیادی ٹیسٹ بھی کروائے جاتے ہیں۔
ملیریا کا علاج کیسے ممکن ہے؟
علاج کی نوعیت کا تعلق مرض کی شدت پر منحصر ہے۔
معمولی نوعیت کے ملیریا کا علاج گولیوں کے ذریعے ممکن ہے۔
مخصوص دورانیہ کے ساتھ چند دن تک ان گولیوں کے استعمال سے مریض صحتیاب ہو جاتا ہے۔
تاہم ملیریا کی خطرناک اقسام یا پیچیدگیاں ظاہر ہونے کی صورت میں مریض کو ہسپتال میں داخل کر کے دواؤں کو انجیکشنز کے ذریعے دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بخار کے لیے پیراسیٹامول کا استعمال بھی کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ ملیریا کی بعض اقسام میں علاج مکمل ہو جانے کے کچھ عرصے بعد مرض دوبارہ سر اٹھا سکتا ہے۔
لہذا ان اقسام کے مکمل علاج کے لیے بظاہر صحتیاب ہوجانے کے بعد ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق کچھ عرصے تک مزید دوا استعمال کرنا پڑ سکتی ہے۔
ملیریا سے بچاؤ کیسے کیا جائے؟
ملیریا سے بچاؤ آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔
بنیادی طور پر مچھروں کی افزائش کی روک تھام کے ذریعے ملیریا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔
گندے پانی کے ذخائر کو ختم کیا جائے جہاں مچھروں کی پرورش کا امکان موجود ہو۔
کھلی فضا میں سوتے ہوئے مچھر دانیوں کا استعمال یقینی بنایا جائے۔
گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں پر جالیاں لگائی جائیں تاکہ مچھر اندر نہ آ سکیں۔
اگر ممکن ہو تو بجلی سے چلنے والی مچھر بتیاں استعمال کی جائیں۔
اس کے علاوہ ملیریا سے متاثرہ علاقوں میں سفر سے قبل اور بعد میں ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق مخصوص دوائیں استعمال کی جائیں۔
بالخصوص برسات کے موسم کے دوران ان احتیاطی تدابیر کو ضرور اختیار کریں تاکہ ملیریا جیسی مہلک بیماریوں سے بچا جا سکے۔
Recent Comments