ٹائفائیڈ  : ایک پھیلنے والا خطرناک مرض۔۔

ڈاکٹر حافظ فصیح احمد 

سن 2016 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں ٹائفائیڈ بخار کے ایسے کیسز سامنے آئے جن کے خلاف عام طور پر استعمال ہونے والی  اینٹی بائیوٹک ادویات بےسود ثابت ہوئیں۔ 

اس صورتحال نے طبی ماہرین کو خاصا پریشان کر دیا۔

تحقیق کرنے پر مذکورہ کیسز میں ٹائفائیڈ کے ایسے جراثیم پائے گئے جن میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف حیران کن حد تک مدافعت موجود تھی۔

ٹائفائڈ کی یہ قسم اب خطرناک حد تک پھیل چکی ہے۔

 

 

ٹائفائیڈ یا میعادی بخار کیا ہے؟

ٹائفائیڈ بخار جسے میعادی بخار بھی کہا جاتا ہے، بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والا ایک انفیکشن ہے جس میں مختلف اعضاء متاثر ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ٹائفائیڈ بخار ان ممالک میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں صفائی کے انتظامات ناقص ہیں۔

پر ہجوم علاقے جہاں نکاسی آب کا مناسب نظام موجود نہ ہو، وہاں ٹائفائیڈ کے کیسز کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

ہمارا ملک پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ٹائفائیڈ بخار کے کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ہر سال ہزاروں لوگ اس مرض میں مبتلا ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

یوں تو ٹائفائیڈ بچوں اور بڑوں دونوں کو متاثر کر سکتا ہے تاہم مدافعتی نظام کمزور ہونے کی وجہ سے بچوں میں ٹائفائیڈ بخار بہت عام ہے۔

 

ٹائفائڈ کس وجہ سے ہوتا ہے؟

ٹائفائیڈ کا سبب بننے والے “سالمونیلا ٹائفی” نامی بیکٹیریا آلودہ کھانے اور پانی کے ذریعے نظام ہضم میں داخل ہو کر انسانی خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ 

خون کی گردش کے ذریعے یہ بیکٹیریا مختلف اعضاء میں پہنچ کر وہاں اپنی افزائشِ نسل شروع کر دیتے ہیں۔

ان اعضاء میں سر فہرست چھوٹی آنت کے غدود ہیں۔

انفیکشن کے سبب چھوٹی آنت کے غدود میں پہلے ورم آجاتا ہے اور بعد ازاں آنت میں زخم بن جاتے ہیں۔

اگر موزوں اور فوری علاج نہ کیا جائے تو چھوٹی آنت کے یہ زخم سوراخوں میں تبدیل ہو کر زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔

آنتوں کے علاوہ یہ بیکٹیریا پتہ، پھیپھڑوں، دل اور دماغ تک پہنچ کر وہاں بھی انفیکشن کا سبب بنتے ہیں۔

 

ٹائفائیڈ بخار میں کیا علامات ہوتی ہیں؟ 

طبی ماہرین نے ٹائفائیڈ کی علامات کو ہفتہ وار تقسیم کر کے بیان کیا ہے۔

ابتدائی علامات دس سے پندرہ دنوں کے بعد ظاہر ہوتی ہیں جن میں سب سے اہم علامت اونچے درجے کا بخار ہے۔

ٹائفائیڈ کے میعادی بخار کی مدت سات سے دس دن ہے۔

اس دوران جسم کا درجہء حرارت بتدریج بڑھتے ہوئے ایک سو تین یا چار درجے فارین ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔

اس کے علاوہ سر، پیٹ اور پٹھوں میں درد، اسہال(ڈائریا) اور قے(الٹی) وغیرہ کی شکایات عام ہیں۔

مرض کے ابتدائی ہفتے میں اسہال کے بجائے قبض کی شکایت بھی ہو سکتی ہے۔

ایک ہفتے بعد کمر اور سینے پر لال رنگ کے دھبے ظاہر ہوتے ہیں، اسہال کی شکایت بڑھ جاتی ہے اور تلی(سپلین) بڑھ جانے کی وجہ سے پیٹ بھی پھول جاتا ہے۔

اگر بروقت علاج شروع نہ کیا جائے تو دیگر اعضاء میں بھی مرض کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

جیسا کہ کھانسی، پھیپھڑوں میں انفیکشن(نمونیا)، جگر پر ورم(یرقان)، دماغ کا انفیکشن وغیرہ۔

دماغ میں انفیکشن کی صورت میں مریض کا ذہنی توازن بگڑنے لگتا ہے اور مکمل بیہوشی بھی طاری ہوسکتی ہے۔

ٹائفائیڈ کا مرض خطرناک صورت اختیار کرلے تو چھوٹی آنت میں سوراخ بن جانے کے سبب مریض کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

 

ٹائفائیڈ کی تشخیص کیسے ہوتی ہے 

ٹائفائیڈ کی تشخیص کے لیے سب سے پہلے خون کی مکمل جانچ پر مبنی ٹیسٹ سی۔بی۔سی کروانا چاہیے۔

اگر خون میں سفید خلیوں کی مقدار کم معلوم ہو تو ٹائفائیڈ کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

تاہم ٹائفائیڈ کی حتمی تشخیص کے لیے خون میں بیکٹریا کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے “بلڈ کلچر” نامی ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

بلڈ کلچر کے ذریعے بیکٹیریا پر اثر انداز ہونے والی مخصوص ادویہ یعنی اینٹی بائیوٹک کا بھی پتہ لگایا جاتا ہے جس سے بہتر علاج میں مدد ملتی ہے۔

اس کے علاوہ مریض کے فضلے یا پاخانے کے ذریعے بھی ٹائفائیڈ کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔

 

کیا ٹائفائیڈ کا علاج ممکن ہے؟ 

ٹائفائیڈ ایک قابلِ علاج مرض ہے جس میں مخصوص اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ابتدا میں ایک یا دو اینٹی بائیوٹکس کے ذریعے علاج شروع کیا جاتا ہے۔

اگر چند روز تک مرض کی شدت میں کمی واقع نہ ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے اینٹی بائیوٹک تبدیل کرنا ضروری ہے۔

اس کے علاوہ بخار کے لیے پیراسیٹامول وغیرہ کا استعمال کرنا مفید ہے۔

یاد رہے کہ ٹائفائیڈ ایک میعادی بخار ہے لہذا دواؤں کے باقاعدہ استعمال کے باوجود سات سے دس دن تک بخار چڑھتا اترتا رہتا ہے۔

دواؤں کے ساتھ ساتھ مائع جات کا مناسب استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔

 

ٹائفائیڈ کی خطرناک اقسام کونسی ہیں؟ 

دیگر بہت سے بیکٹیریا کی طرح سالمونیلا ٹائفی میں بھی وقت گزرنے کے ساتھ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا ہو رہی ہے۔

گزشتہ چن برسوں میں ٹائفائیڈ کی ایسی اقسام منظر عام پر آئی ہیں جن کے خلاف بہت سی کارآمد اینٹی بائیوٹکس بالکل بے اثر ہیں۔

یہ صورتحال طبی ماہرین کے لیے خاصی پریشانی کن ہے۔

مثلاً چند برسوں قبل منظر عام پر آنے والی ایک قسم جسے “ایکس۔ڈی۔آر ٹائفائیڈ” کہا جاتا ہے، کے خلاف صرف ایک اینٹی بائیوٹک “ایزیتھرو مائیسن” کارآمد ہے۔

اس سے قبل “ایم۔ڈی۔آر ٹائفائیڈ” نے بھی ماہرین کو پریشان کیا تھا جس کے خلاف صرف چند اینٹی بائیوٹکس ہی مفید ثابت ہو سکی تھیں۔

 

اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مدافعت کیسے پیدا ہوتی ہے؟

بیکٹیریا کی افزائش کے دوران رونما ہونے والے جینیاتی عوامل مدافعت کا سبب بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ معمولی امراض میں اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال بھی اس مدافعت کا ایک اہم سبب ہے۔

طبی ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر معمولی انفیکشنز کے علاج میں ایزیتھرو مائیسن کے بے جا استعمال کو روکا نہ گیا تو کہیں آنے والے دنوں میں یہ اینٹی بائیوٹک بھی ایکس۔ڈی۔آر ٹائفائیڈ کے خلاف بےاثر نہ ہوجائے!

 

کیا ٹائفائیڈ سے بچاؤ ممکن ہے؟ 

صفائی ستھرائی کے بنیادی اصولوں پر عمل کر کے ٹائفائیڈ سے بچا جا سکتا ہے۔

واش روم استعمال کرنے کے بعد اچھی طرح صابن سے ہاتھ دھوئیں۔

کھانے پینے سے قبل ہاتھ دھونے کی عادت اپنائیں۔

پھل اور سبزیوں کو صاف پانی سے اچھی طرح دھو کر کھائیں۔

اپنے گھر اور ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھیں۔

اس کے علاوہ ٹائفائیڈ سے بچاؤ کے لیے ویکسینز بھی دستیاب ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے اشتراک سے چند برس قبل “ٹائفائیڈ کانجوگیٹڈ ویکسین” تیار کی گئی ہے۔

اس ویکسین کو سن 2019 میں پاکستان کے صوبہ سندھ میں، جہاں سب سے زیادہ ٹائفائیڈ کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، متعارف کروایا گیا تھا۔

تحقیق کے مطابق مذکورہ ویکسن لمبے عرصے تک ٹائفائیڈ سے بچاؤ کے لیے مؤثر ہے۔

 یاد رکھیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ 

روز مرہ زندگی میں صفائی ستھرائی کا بہتر انتظام کر کے ٹائفائیڈ سمیت بہت سے موذی امراض سے بچا جا سکتا ہے۔