ہفتے کے دو روزے: صحت اور ثواب
ڈاکٹر محمد یحییٰ نوری
موجودہ دور مشینوں کا دور ہے۔
ہم میں سے بہت سے افراد ایسے ہیں جو دن کا اکثر حصہ ایک جگہ بیٹھے گزار دیتے ہیں۔
جسمانی محنت و مشقت اب ہماری زندگی کا حصہ نہیں ۔
جبکہ انسانی جسم اس انداز میں تخلیق ہوا ہے کہ یہ جو کچھ آپ کھاتے ہیں اسے اگر استعمال نہ کرے تو محفوظ کر لیتا ہے۔
نتیجتا” وزن بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل بھی ۔
جلد ہی ذیابیطس، بلڈ پریشر، جوڑوں کی تکالیف اور دل اور شریانوں کی بیماریاں جسم میں گھر بنا لیتی ہیں۔
ساتھ ہی بندہ اپنا بڑھتا وزن دیکھ دیکھ کر ایک مسلسل ذہنی کوفت کا شکار ہو تا چلاجاتا ہے اور کچھ عرصے میں نفسیاتی مریض بھی بن جاتا ہے۔
بڑھتے وزن کا حل ، کھانے پینے میں وقفہ:
سائنسی تحقیق موجودہ زمانے کے حالات کی وجہ سے بڑھتے وزن اور اس کے ساتھ پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ہفتے میں کچھ دورانیے کے لیے کھانے پینے سے مکمل پرہیز تجوویز کرتے ہیں۔
ان کے مطابق اس سے جسم اپنی جمع شدہ چکنائیاں استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے جو کہ وزن کی کمی میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس کے لیے مختلف قسم کے نظام الاوقات استعمال کیے جا سکتے ہیں جن میں سے 2-5 کا نظام الاوقات زیادہ مشہور ہے۔
یعنی پانچ دن کھانا اور دو دن روزہ رکھنا۔
آپ چاہیں تو ایک دن کھانے پینے اور ایک دن روزہ رکھنے کا معمول بھی بنا سکتے ہیں۔
صرف طبی فوائد حاصل کرنے کے لیے آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اس طبی روزے کے دوران آپ پانی پینا جاری رکھیں۔۔
وقفے وقفے سے روزہ رکھنے کے فوائد
امریکی ادارے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے رفائل ڈی کابو اور جانس ہاپکنس یونیورسٹی کے محقق مارک میٹسن کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق وقفے وقفے سے روزے رکھنا عم کو طویل کرتا ہے، جسم کو دباؤ سے مقابلہ کرنے کے قابل بناتاہے اور کینسر اور موٹاپے جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔۔
صحت اور ثواب ساتھ ساتھ
نبی اکرم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ پیر اور جمعرات کے روزے تواتر سے رکھا کرتے تھے۔
کئی احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ کے اسم معمو نے بل کا ذکر ہے۔
اس معمول کو بعض صحابہ کرام ؓنے بھی اپنی زندگی میں اختیار کیا۔۔
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے غلام کہتے ہیں کہ وہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ وادی قری کی طرف ان کے مال (اونٹ) کی تلاش میں گئے (اسامہ کا معمول یہ تھا کہ) دوشنبہ (سوموار، پیر) اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، اس پر ان کے غلام نے ان سے پوچھا: آپ دوشنبہ (سوموار، پیر) اور جمعرات کا روزہ کیوں رکھتے ہیں حالانکہ آپ بہت بوڑھے ہیں؟ کہنے لگے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، اور جب آپ سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بندوں کے اعمال دوشنبہ اور جمعرات کو (بارگاہ الٰہی میں) پیش کئے جاتے ہیں“۔ (ابو داؤد2436 )
آپ ﷺ نے مگر اس عمل کو روز کرنے سے منع فرمایا اور انتہائی حد پر ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھنے کی اجازت عطا فرمائی۔۔
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں داخل ہوئے اور فرمایا: ”کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی ہے کہ تم رات میں قیام کرتے ہو اور دن میں روزہ رکھتے ہو؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہاں ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”تم ایسا ہرگز نہ کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، روزہ سے بھی رہو اور کھاؤ پیو بھی، کیونکہ تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، اور تمہارے بدن کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے دوست کا تم پر حق ہے، توقع ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو، تمہارے لیے بس اتنا کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو، یہی صیام الدھر ہو گا کیونکہ نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے، میں نے عرض کیا: میں اپنے اندر طاقت پاتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی، آپ نے فرمایا: ”ہر ہفتے تین دن روزہ رکھا کرو“، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی، آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزے رکھو“، میں نے کہا: داود علیہ السلام کا روزہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک دن روزہ ایک دن افطار“۔ (سنن نسائی 2393)
کتنا اچھا ہو کہ ہم اس رمضان عہد کریں کہ اس سنت نبوی ﷺ کو زندہ کریں گے اور اپنی پوری کوشش کریں گے اس رمضان کریں کے اس معمول کو جاری رکھیں۔
Recent Comments