اولاد کی  تربیت کے چار انداز اور ان کے نتائج: آپ کس قسم کے والدین ہیں؟

ڈاکٹر محمد یحییٰ نوری

 

اکثر والدین اولاد کی تربیت کے حوالے سے پریشان رہتے ہیں۔۔

زمانے کے بدلتے احوال اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ اولاد کی تربیت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔

اولاد پر سختی کی جائے؟

یا اسے بالکل اپنی مرضی پر چھوڑ دیا جائے؟

اس کی ہر حرکت پرسخت پوچھ گچھ کی جائے؟

یا اسے اپنے فیصلے کرنے میں آزاد چھوڑ دیا جائے؟

یہ سارے سوال آج کل کے والدین کو بہت پریشان کرتے ہیں۔۔

اس معاملے پر ہونے والی تحقیق والدین کو چار اقسام میں تقسیم کرتی ہے۔

یہ تحقیق ایک مشہور ماہر نفسیات  ڈیانا بامرنڈ کے کام کے گرد گھومتی ہے۔

تربیت کی یہ چاروں اقسام مختلف انداز میں اولاد کی تربیت کرتی ہیں۔

اور ان کے ہاتھوں پروان چڑھنے والی اولاد بھی مختلف قسم کے انسانوں میں ڈھل جاتی ہے۔

والدین کی پہلی قسم بے پرواہ والدین ہیں۔

ایسے والدین جو اپنے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

بچے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔

اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں۔

والدین نہ ان کے معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں نہ ہی بچوں پر اپنا حکم چلاتے ہیں۔

 اپنے حال میں مست رہتے ہیں۔

ایسے والدین کے ہاتھوں پروان چڑھے بچے جذباتی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔

ان میں ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں کمی ہوتی ہے۔

یہ نشہ یا جرائم کی لت میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

ان کے لیے کسی کے ساتھ جذباتی تعلقات قائم کرنا اور نبھانا مشکل ہوتا ہے۔

والدین کی  دوسری قسم غیر منظم ،  ڈھیلے ڈھالے والدین ہیں۔

یہ والدین اپنے بچوں سے محبت کا اظہار تو کرتے ہیں مگر انہوں نے بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہوتا ہے۔

یہ اپنے بچوں پر کوئی پابندیاں لاگو نہیں کرتے۔

بچے جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔

جیسے چاہتے ہیں رہتے ہیں۔

ایسے والدین کے بچوں کے لیے نظم و ضبط کی پابندی کرنا مشکل ہوتا ہے۔

یہ بچے آزاد طبع ہوتے ہیں مگر ان کے لیے ذمہ داری نبھانا مشکل ہوتا ہے۔

کیوں کہ ان بچوں کو  کبھی کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوتا تو یہ بچے بعد میں بھی پابندیوں اور ذمہ داریوں کو پسند نہیں کرتے۔

ان بچوں کو کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔

ساتھ ہی ان بچوں کے نشے یا جرائم میں مبتلا ہوجانے کے بھی امکانا ت ہوتے ہیں۔۔

ان کے لیے اپنے وقت یا عادات کو کسی سانچے میں ڈھالنا مشکل ہوتا ہے۔

والدین کی تیسری قسم  آمریت پر یقین رکھتی ہے۔

ان کا کہا پتھر پر لکیر ہوتا ہے۔

یہ ایک سخت گیر حکمران کی طرح ہوتے ہیں۔

محبت کا اظہار ذرا کم ہی کرتے ہیں۔

بچوں سے امیدیں بلند رکھتے ہیں مگر ان  خواہشوں کو پورا کرنے میں بچوں کا کسی طرح ساتھ نہیں دیتے۔

بچوں کی غلطیاں انہیں برداشت نہیں ہوتیں۔۔

بچے غلطی کریں تو انہیں سخت سزائیں بھی دیتے ہیں۔۔

تنقید کرتے ہیں۔

اور بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر عار دلاتے ہیں، انہیں شرمندہ کرتے ہیں۔

 ان والدین کے بچوں میں ایک جھجک پیدا ہوجاتی ہے۔

ان میں اعتماد کی کمی  پروان چڑھتی ہے۔

انہیں اپنے کاموں میں بار بار  اس یقین دہانی کی ضرورت  پڑتی ہے کہ وہ صحیح کر رہے ہیں۔

ان بچوں میں عزت نفس کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔

ان کے لیے تعلقات بنانا اور پروان چڑھانا مشکل ہوتا ہے۔

کیوں کہ زندگی میں انہیں فیصلے کرنے کا اختیار ہی نہیں ملا ہوتا اس وجہ سے یہ بچے فیصلہ سازی میں بہت دقت محسوس کرتے ہیں۔

والدین کی چوتھی قسم  سب سے بہترین ہے۔

یہ والدین  ذمہ دار والدین ہوتے ہیں۔

یہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔

انہیں خواب دکھاتے ہیں اور خوابوں کو پورا کرنے میں ان کی پوری مدد کرتے ہیں۔

محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور ضرورت کے وقت تھوڑی سختی بھی کرتے ہیں۔

بچوں کے ساتھ تعلق کو پروان چڑھاتے ہیں ، مگر ساتھ بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنے میں راہنمائی بھی کرتے ہیں۔

بچوں کو اہداف دیتے ہیں اور ان اہداف تک پہنچنے میں ان کے ساتھی بن جاتے ہیں۔

ان پر بے وجہ تنقید نہیں کرتے ۔

بلکہ غلطیوں کی نشاندہی کر کے ان  کی کمی کوتاہی کو دور کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

ایسے والدین کے بچوں میں خود اعتمادی ہوتی ہے۔

بچے آہستہ آہستہ بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

انہیں اپنے معاملات میں والدین سے مشورہ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔

وہ جذباتی طور پر بہت حد تک  مستحکم ہوتے ہیں۔

مشکل معاملات سے نبٹنے کے قابل ہوتے ہیں۔

یہ چار مختلف انداز تربیت ہیں جو اولاد کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔۔

یہ چار مختلف قسم کے افراد کو پروان چڑھاتے ہیں۔

آپ کا انداز تربیت کون سا ہے؟

اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔۔