خود فراموشی:  کام میں انہماک جوانسان کو درجہ کمال پر پہنچاتا ہے

 نورالعلمہ حسن 

اپنے کاموں کو بہترین انداز میں مکمل کرنا ایک فن ہے جو انتھک محنت، انتہائی لگن، ارتکاز اور انہماک طلب کرتا ہے۔

لیکن میں اور آپ تو ذرا سی دیر میں تھک جاتے ہیں ۔۔

پھر یہ انتھک محنت کا تجربہ بھلا حاصل کیسے ہوگا جس کے تحت  دل اور دماغ کے سرجن گھنٹو ں کھڑے رہ کر مریضوں کے پیچیدہ آپریشن کر سکتے ہیں ۔۔

مصنفین اور مصور کئی کئی دنوں کے لیے یکسو ہو کر  اپنا کام کرتے رہتے ہیں ۔

اس طرح کے انہیں اپنا آپ بھی یاد نہیں رہتا۔

بس کام کی ایک دھن ہوتی ہے جو انہیں چلتا رکھتی ہے۔۔

استغراق یا خود فراموشی کی یہ حالت جس میں انسان اپنے کام میں اس قدر غرق ہوجائے اسے ہم  انگریزی میں فلو  کہتے ہیں۔

اس کا تصور باقاعدہ طور سے میہائی  چیکسینت مِیہائی نامی ایک ماہرِ نفسیات نے متعارف کرایا تھا۔

یہ حالت ہر شخص کو ہر موقع پر نہیں مل سکتی لیکن جیسے ہی کسی کو حاصل ہوجائے وہ دنیا وما فیہا سے بےخبر اپنے کام میں ایسا جُت جاتا ہے کہ پھر اسے پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر دم نہیں لیتا۔

 اپنے فرائض کو بحسن و خوبی سرانجام دینے کے لیے اس کیفیت کا حصول بہت ضروری ہے کہ جس میں تھکن، بھوک پیاس کے احساس کی بجائے انسان ارتکاز کے درجۂ کمال پر پہنچ جائے۔

حقیقی خوشی کب حاصل ہوتی ہے؟

میہائی کے مطابق انسان کو حقیقی خوشی آرام سے بےمقصد گزارے اوقات میں نہیں بلکہ اپنے کاموں میں مگن ہونے پہ حاصل ہوتی ہے جب آپ واقعتاً مشکلات کا سامنا کریں اور اپنے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔

جب آپ اپنے کاموں کو لے کر مطمئن ہوں، انہیں کر پارہے ہوں، ان سے اکتانے کی بجائے ان میں بےحد محو ہوجائیں، یہ ہوتا ہے حقیقی خوشی کا ذریعہ… جب آپ کو اپنے کام میں اس قدر مشغول ہو جائیں کہ آپ کو اس میں مزہ آنے لگے۔

خود فراموشی یا استغراق کیسے حاصل کریں؟

ہمیں یہ معلوم ہے کہ استغراق کا تجربہ ہم سب کو کبھی نہ کبھی کسی موقع پر ضرور حاصل ہوتا ہے۔

 کسی کے لیے گھر کے کام کاج اور کھانے پکانا، سلائی کڑھائی، کسی کے لیےمطالعہ، کسی کے لیے مصوری یا  لکھنا، کسی کے لیے پڑھانا، کسی کے لیے تلاوت اور عبادت اس کا شوق ہوتا ہے اور وہ اس میں خود کو بےحد محو پاتا ہے حتی کہ بہت سے موقعوں پران کاموں کو کرتے وہ استغراق کے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔

البتہ یہ کیفیت ہمیں ہر کام کے لیے اور ہر وقت حاصل نہیں ہوپاتی۔

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے بیشتر کاموں میں محویت پیدا کرسکیں۔

ارتکاز سے انبساط تک

گذشتہ بلاگ میں ہم نے ارتکاز کے موضوع پر گفتگو کی تھی۔

ہم نے ذکر کیا تھا کہ ارتکاز ایک مشق طلب حالت ہے جس میں انسان اپنے آپ کو اپنے اصل کام کے سوا دیگر تمام معاملات سے علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

ارتکاز کی مشق آپ کو آپ کے کاموں کے لیے مخلص اور یکسو کردیتی ہے اور محویت کے حصول کے لیے یہ مشق پہلی سیڑھی ہے۔

اولاََ آپ کو اپنے کام میں دلچسپی نہ بھی ہو تو کم، زیادہ اور کبھی کبھی بہت زیادہ یہ مشق آپ میں ارتکاز کے ذریعے پہلے دلچسپی اور پھر محویت پیدا کرے گی۔

واضح مقاصد

کسی کام کی جانب اپنی توجہ مبذول کرنے کے لیے اس سے حاصل ہونے والے نتائج اور توقعات کا ذہن میں واضح ہونا ضروری ہے۔

آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ کی غرض و غایت کیا ہے تو اس کام پہ توجہ دینے کے لیے خود کو منانا آسان تر ہو جاتا ہے۔

درجہ بہ درجہ اپنے اصل مقصد کو چھوٹے چھوٹے مقاصد میں بانٹیے اور ان سنگِ میل کو عبور کرتے ہوئے اپنی محویت کو قدم بہ قدم بڑھائیے۔

جب آپ ایک چھوٹا قدم بڑھانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اگلا قدم بڑھانا آپ کے لیے آسان تر ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ آپ میں اپنے کام کے لیے دلچسپی بڑھنے لگتی ہے۔

محرکات – موٹیویشن 

یاد رہے کہ یہ کوئی ایک رات کا کام نہیں بلکہ بارہا خود کو تحریک دینے اور اپنی تربیت و ذہن سازی کا عمل ہے۔

آپ نیت کیجیے اندرونی یا بیرونی محرکات آپ کو ملتے رہیں گے۔

 اندرونی خوشی آپ کے لیے وہ محرک ضرور بنے گی جو آپ کو آگے بڑھنے میں مدد دے۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسے اعلیٰ پائے کے سرجن انجینیر بننا چاہتے تھے پھر مجبوراً اس شعبے میں آئے اور ایک مرتبہ اس شعبے میں داخل ہوجانے کے بعد آہستہ آہستہ دلچسپی لینے سے خود بخود انہیں کبھی اندرونی خوشی اور کبھی مریضوں کی صورت میں تحریک ملتی رہی تاآنکہ وہ تقریباََ ساٹھ برس سے بھی زائد عرصے سے اس شعبے سے وابستہ ہیں۔

صلاحیت اور چیلنجز کا توازن 

اپنے کام پر مکمل قابو کا ادراک انسان کو تبھی ہوسکتا ہے جب وہ کام اس کے بس میں ہو۔

ذرا تصور کیجیے اگر آئنسٹائن اور نیوٹن جیسی غیرمعمولی ذہنی صلاحیت رکھنے والوں کو اپنڈکس کی معمولی سرجری کے لیے کھڑا کردیا جائے۔

آپ کے کرنے کا کام آپ کی صلاحیتوں سے متوازن ہوگا تبھی آپ خود کو  میں لے جاسکیں گے۔

اور کیا ہوا اگر کوئی صلاحیت فی الحال موجود نہیں۔

ہر انسان ہنر سیکھنے اور صلاحیت پیدا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے سو آپ بھی ضرورت کے اعتبار سے وقتاً فوقتاً خود کو چیلنج دیتے رہیے اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیجیے۔

صحبت اور جماعت کی اہمیت

 

آپ مستقلاً اپنے کاموں میں یکسو رہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کا حلقہ بھی آپ کی منزل کی جانب رواں دواں ہو۔

آپ کے ساتھی آپ کے لیے بیرونی محرک ہی نہیں بلکہ توجہ کو مرکوز رکھنے کا ذریعہ بھی بنیں گے۔

لوگ پڑھائی کے لیے اکثر لائبریری میں جا کر بیٹھتے ہیں جہاں خودبخود اس ماحول میں آنے سے ان پر گفتگو اور دیگر کاموں پر پابندی لگ جاتی ہے۔ چاروناچار انہیں اپنے اصل کام پر توجہ دینی ہوتی ہے۔ کمرۂ جماعت اور عبادت گاہوں کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔

آپ جن محافل میں اٹھتے بیٹھتے ہیں آپ کی دلچسپی بھی ان مجالس کے دیگر افراد سے مشترک ہونے لگتی ہے اور یہ عنصر محویت پیدا کرنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

غرض یہ کہ اگر آپ کو کسی کام میں دلچسپی، یکسوئی اور محویت پیدا کرنی ہے تو آپ مشترک شوق اور مقاصد رکھنے والے  ساتھیوں کی تلاش کریں۔

امید ہے اپنے کاموں میں محویت پیدا کرنے کے سلسلے میں یہ تحریرآپ کے لیے معاون ثابت ہوگی۔

اگر آپ باقاعدہ مشق سے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں یا اپنے تجربے سے اس تحریر میں پیش کردہ نکات میں کوئی اضافہ کرنا چاہیں تو ہمیں کمنٹ سیکشن میں ضرور بتائیے۔